پہلی قسط
خاموش مجاہدوں کا تذکرہ ہوتا ہوگا تو یقیناً اس میں ہمارے ابو کا نام سر فہرست آتا ہوگا۔
ابو مجھے اکثر کہتے تھے کہ “تم میری کہانی لکھنا۔ مجھ سے اتنا لکھا نہیں جاتا”۔ اب میں سوچتی ہوں کہ ابو کی کون کون سی کہانی لکھوں۔ اکثر تو کوئی آغاز انجام ہی سجھائی نہیں دیتا۔
تحریک خالصتان کا جتنا لٹریچر میں نے پڑھا یا سنا ہے اس میں محمد اقبال عرف لالی شاہ کا کردار امر ہو چکا ہے۔ جس عقیدت اور محبت سے لالی شاہ کا نام لیا جاتا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ بھلا میرے الفاظ اس کردار کی عظمت بیان کر سکیں گے۔
میں نے ابو سے کبھی پوچھا بھی کہ آپ اپنا کوئی عہدہ کبھی نہیں بتاتے۔ ہمیشہ صرف یہ کیوں کہتے ہیں کہ “میں ایک جاسوس تھا یا میں بس ایک مجا/ہد ہوں”۔ تو اتنا ہنستے تھے کہ ہنستے ہنستے آنکھیں پانی سے بھر جاتی تھیں۔
میں نے آج تک اتنی خوبصورت آنکھیں کسی عورت، مرد کی نہیں دیکھیں۔ لیکن اس لمحے ان میں جو “درد” ہوتا تھا وہ لکھنے کے لیے کوئی الفاظ آج تک بنے ہی نہیں۔
ابو کہتے تھے کہ انڈیا کی قید میں گزرے اذیت ناک آٹھ سالوں نے مجھے کبھی بھی “درد” نہیں دیا۔ لیکن اپنے ہی وطن میں اپنے ہی “ہموطنوں” کے تفتیشی سوالات اور میری حب الوطنی پہ شکوک وشبہات مجھے سچ میں “درد” دیتے ہیں۔
“بونے” لوگ تو ہر جگہ، ہر کسی کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی قدردان لاتعداد ہوتے ہیں۔ اپنے وطن میں بھی اس “درد” سے ذیادہ ابو نے محبتیں کمائی ہیں۔ اس لیے انہیں کبھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوا کہ زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا۔
جب ضیاء الحق صدر بنا اور اپنے قریبی دوستوں اور ہمدردوں کو عہدے بانٹے تو ایک بار ابو کو بھی ون آن ون ملاقات کے لیے بلایا تھا۔
کسی گزرے زمانے میں کمانڈو ٹریننگ یا انٹیلیجنس کی سروس کے دوران ابو کی ضیا الحق سے دوستی رہی تھی۔
لیکن یہ 1981 کا آغاز تھا۔ ابو کہتے تھے کہ “صدر نے میرے سامنے ایک فائل رکھی۔ میں نے ایک نظر فائل کو دیکھا اور اسے بند کرکے صدر کی طرف سرکا دیا۔
“Mr. President! It’s not my job.”
میرا خیال ہے کہ وہ ابو کی خدمات کے اعتراف کی فائل ہوگی اور صدر نے ان کا انعام دینےکا وعدہ بھی کیا ہوگا۔ بشرطیکہ وہ صدر کی شرائط پر کام کرنے کی حامی بھر لیتے۔
انہیں دنوں میں تو ابو کی شادی ہوئی تھی۔ نئی زندگی، نئے گھر کے کتنے ہی خواب دیکھے ہوں گے۔ لیکن اپنے ہر خواب کو ایک بار پھر اپنے وطن کی محبت میں قربان کر دیا۔
اس وقت کوئی عہدہ لینے کا مطلب تھا کہ اپنے ہی ہم وطنوں پہ ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کردار ادا کرنا۔ لیکن ایک شخص جس نے انڈیا میں اپنی جان پہ کھیل کر کبھی اپنی مٹی کے ایک زرے کا سودا نہیں کیا تھا، وہ اپنی مٹی پہ بستے ہوئے اسی کے بیٹوں کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا، ممکن ہی نہیں تھا۔
مگر کلی اختیارات کے مالک صدر کو صاف انکار کرنے کا مطلب تھا کہ آئندہ کی تکلیف دہ زندگی کے لیے تیار رہو۔ پھر ان کے ہر کام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں۔ یہاں تک کہ ان کی کوئی نوکری یا کاروبار پنپنے نہیں پایا۔
آیا میں اس ظلم کی داستان لکھوں جو بےنظیر بھٹو نے ابو کے ساتھ روا رکھا، بالکل ایسے ہی جیسے آج خان کے ساتھ حاکم وقت کر رہا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ بےنظیر دوپٹے پیکو نہ کروانے پہ بڑے بڑے افسران کو جھاڑ پلا دیتی تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس ملک کے عظیم بیٹوں کے ساتھ بےنظیر نے جو ذیاتی کی، وہ اس جھاڑ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
سن 1992 میں حامد میر نے ابو کا انٹرویو کیا تو بےنظیر نے وہ پروگرام آن ائیر ہی نہ آنے دیا۔ کیونکہ اس انٹرویو میں ابو نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاہ کارناموں کا بھی تذکرہ کیا تھا اور شاید پاکستان کے دولخت ہونے کا دکھڑا بھی سنایا تھا، جس کے وہ چشم دید گواہ تھے۔
جس اخبار نے ابو کی روداد لکھنا چاہی، بے نظیر نے وہ اخبار بند کروا دیا۔ اس اخبار کا مالک آج گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا ایڈیٹر آج بھی ایک کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔
اس سوہنی دھرتی کے کرتا دھرتاؤں نے ایماندار، محب وطن لوگوں کے لیے ان کی اپنی ہی زمین ہمیشہ تنگ رکھی ہے۔
لیکن یہ قدرت کا انعام ہے کہ آج بھی سوہنی دھرتی ایسے عظیم سپوت پیدا کر رہی ہے جو اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں لیکن اس پہ آنچ نہیں آنے دیتے۔
ابو نے بمشکل ایک چھوٹا سا گھر بنایا۔ لیکن گھر ایسا تھا کہ بڑے بڑے لوگ اس گھر میں بلاجھجک چلے آتے تھے۔ کبھی کوئی سفیر، کبھی کوئی ایم این اے، کبھی کوئی ایم پی اے، کبھی کوئی بیوروکریسی کے بڑے بڑے افسران۔ لیکن پروٹوکول مانگتے تھے نہ ساتھ لاتے تھے۔ رعب جمانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ان سب کے انداز میں ابو کے لیے بہت عقیدت ہوتی تھی۔ اکثر تو ابو کے برابر بیٹھنے کی بجائے قدموں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے کہ ہم آپ کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں۔
یہ لوگ اپنے ہر کام کی شروعات، بچوں کی تعلیم ،شادی بیاہ، نوکری تک کے لیے ابو سے مشورہ کرنے آتے تھے کہ “اقبال بھائی آپ جو کہہ دیں گے ہم وہی کریں گے”. اور پھر سب وہی کرتے تھے، جو ابو کہہ دیتے تھے۔
ان کے بچے بچیاں ابو سے لاڈ کرتے، فرمائشیں کرتے، سفارشیں کرواتے کہ چچا جان/ماموں جان! آپ ابو/امی کو منائیں گے تو وہ ہماری بات نہیں ٹالیں گے۔ اور ہمارے ابو ہنستے چلے جاتے تھے۔
ہم بھی کبھی کسی کے گھر جاتے تو سب ہمیں یوں ہاتھوں ہاتھ لیتے، کھڑے ہو کر جھک کر ملتے جیسے کوئی بہت بڑی ہستی ان کے گھر آ گئی ہو۔
اگر میں ابو کی ذاتی زندگی کی کہانی لکھنا شروع کروں تو جس سے بھی ملو وہ ابو کے متعلق اپنی ہی کہانی سنانے لگتا ہے کہ اقبال بھائی سے مجھے ایسی محبت ہے کہ مجھے اپنے سگے بھائی بہن سے بھی نہیں ہوگی۔
یوں پاکستان کے طول و عرض میں ابو کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں بہن بھائی ہیں جو آج بھی ہمیں کہیں مل جائیں تو ابو کی دی ہوئی محبتیں ہم پہ یوں نچھاور کرتے ہیں کہ جیسے ہم ان کا کوئی قیمتی اثاثہ ہوں۔
ابو کی کتنی ہی، بظاہر منہ بولی لیکن سگے رشتوں سے بڑھ کر بہنیں ہیں، جو کہتی ہیں کہ “تم لوگوں کے منہ سے “پھپھو” سننا سب سے اچھا لگتا ہے کہ جیسے اقبال بھائی سامنے بیٹھے ہوں۔ ہمیں ان کے جیسا بھائی دوبارہ ملنا ناممکن ہے”۔
ابو کے سب “بھائی” کہتے ہیں کہ ہماری ہر دعا میں اقبال بھائی اور ان کے بچے ضرور شامل ہوتے ہیں۔
ہم بہن بھائیوں کو ابو کے ان بہن بھائیوں کی ان گنت دعائیں ہر روز ملتی ہیں جو ہم تک پہنچتی بھی ہیں۔
ہمارے ماموں کہتے ہیں اقبال بھائی جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔
ہماری نانی کو میں نے کئی بار کہتے سنا “مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اقبال مجھے اپنی سگی اولاد کی طرح عزیز ہے۔ جس دن سے دنیا سے گیا ہے مجھے بھولتا ہی نہیں۔ ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے”.
لوگ کہتے ہیں “تمھارے ابو نے کمایا کیا”
بھلا ایسی عزت اور اتنی قیمتی محبتوں سے بڑھ کر بھی کوئی کمائی ہو سکتی ہے۔ یہ عزت، یہ محبتیں تو لوگ ساری دنیا کی دولت لٹا کر بھی نہیں خرید پاتے۔
میرا یقین ہے کہ آج بھی ہر محکمے اور ادارے میں کوئی نہ کوئی “محمد اقبال” ضرور موجود ہے جو یوں ہی خاموش مجا/ہد بنا اپنے حصے کا کام کر رہا ہے۔ کسی عہدے کا لالچ اسے اپنے وطن کے خلاف مائل نہیں کر سکتا۔
ان مجا/ہدوں کے لیے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں، جس مقام، جس روپ میں بھی ہیں، آپ لازوال عزت اور انمول محبتیں کما رہے ہیں۔ آپ کی قربانیاں ہم پہ قرض ہیں۔ ہم آپ کو سارے زمانے کی دولت بھی دے دیں تو یہ قرض ادا نہیں کر سکتے، تاقیامت نہیں کر سکتے۔
27 جولائی 2024
دوسری قسط
خان سے آپ اکثر بلکہ بار بار سنتے ہیں کہ اپنے خوف کے بت کو توڑ دو۔ عزت، زندگی اور رزق چھن جانے کے خوف سے آزادی حاصل کرو۔
کیونکہ عموماً انسان انہیں تین چیزوں کے خوف میں مبتلا رہتا ہے خاص کر رزق چھن جانے کے خوف میں اور پھر چیونٹیوں کی طرح زمین پر رینگتا ریتا ہے۔
خان کی زندگی تو کھلی کتاب ہے کوئی ورق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ خان کو اللہ نے ایسے ہر خوف سے آزاد پیدا کیا ہے۔
لیکن آج ایک عام مگر اسی خاموش مجا/ہد کا قصہ سنیے جس نے اپنے خوف کے بت کئی بار توڑے اور ہر بار اللہ نے عزت، زندگی اور رزق میں ایسی برکت دی جو شہنشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔
ہمارے ابو نے جب بھی اپنے وطن کا سودا کرنے سے انکار کیا ان کے “دشمن” انہیں کسی نہ کسی خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کئی بار ان پہ ظلم کا پہاڑ توڑا گیا لیکن فرعونوں کو ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن اس ذات کا مقابلہ کون کر سکتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں کل کائنات کا نظام ہے۔ جو کبھی اپنا وعدہ بھولتا ہے نہ ہی وعدہ خلافی کرتا ہے۔ جو رب ہے رازق ہے مالک ہے۔ اس ذات نے ہمیشہ ابو کو تھامے رکھا۔
لیکن ایسا اس لیے بھی تھا کہ ان کو ساتھ بھی اپنے جیسی عورت کا ملا تھا۔ اپنے رب پہ ابو کا توکل مثالی تھا تو ہماری امی کا رازق پہ ایمان ایسا کامل کہ رزق آج بھی ہمارے گھر میں من و سلویٰ کی طرح اترتا ہے۔
ابو کا دل وسیع تھا تو ہماری امی کا دل بھی کبھی تنگ نہیں پڑتا تھا۔ جیسے بھی حالات رہے لیکن گھر میں برکت ہمیشہ رہی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا گھر بہت عام سا گھر تھا لیکن اس میں کبھی “غربت” کا غ بھی داخل نہیں ہو سکا۔
ہمارے ابو انتہائی خوش خوراک تھے اور پتہ نہیں کہاں سے بوریاں بھر بھر کے ہر موسم کا مگر بہترین پھل لاتے تھے۔ کبھی موسمی سبزیاں اور کبھی بہترین گوشت۔ یہاں تک کہ ڈرائی فروٹس بھی اتنی تعداد میں گھر لاتے تھے کہ امی محلے میں، رشتےداروں میں بانٹ دیا کرتی تھیں کہ اتنا سب گھر میں کون کھائے گا۔ خراب کرکے ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ رزق کسی کے منہ میں چلا جائے۔ وہ کبھی رزق کی بے حرمتی نہیں کرتی تھیں۔
بیلن کا سوکھا آٹا چیونٹیوں کے لیے رکھ دیتیں، چاول چڑیوں کے لیے اور ہڈیاں بلیوں کے لیے۔ بچا ہوا کھانا گلی میں کوئی مانگنے آتا تو اس کو دیتی تھیں یا کچرے والے کو یا کام والی کو۔ لیکن کبھی ڈسٹ بن میں نہیں پھینکتی تھیں کہ رزق کی بے ادبی نہ ہو۔
ہمارے بچپن میں ہماری کام والی بھی لاجواب عورت تھی۔ کرسچئین تھی اور انتہائی شریف اور ایماندار۔ ہماری امی نے کبھی اس کے ساتھ حقارت سے بات نہیں کی۔
لیکن وہ خود اتنی سمجھدار تھی کہ کھانا کھا کر یا پانی پی کر اپنے برتن دھو کے خود ہی الگ رکھ جایا کرتی تھی کہ “باجی میرا گلاس یہیں رہنے دینا مجھے اکثر پانی پینا ہوتا ہے” ذیادہ تر وہ کھانا گھر لے جاتی تھی “باجی اپنے بچوں کے ساتھ کھاؤں گی”۔
امی کے ہاتھ میں ذائقہ ایسا تھا کہ سادہ سی دال سبزی بھی بہت لذیذ بنتی تھی۔ فریج میں ہر وقت گوشت صاف کرکے الگ الگ حصے بنا کر رکھتیں، کباب بنا کر رکھتیں، کئی کئی کلو مٹر چھیل کر فریز کر لیا کرتیں کہ کوئی مہمان اچانک آ جائے تو پریشانی نہ ہو۔
ابو کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں تو دوست تھے۔ وقت بے وقت مہمان بنا کر گھر لے آتے تھے کہ میں تو کھانا گھر جا کر کھاؤں گا تو دوست بیچارہ کہاں بھوکا پیاسا رہے گا۔
اس وقت کے دوست بھی کمال کے ہوتے تھے۔ کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے۔ سب کا یہی کہنا ہوتا تھا “بہنوں کے گھر خالی ہاتھ نہیں آتے. ہم اپنی باجی کے لیے تحفہ لائے ہیں”۔
امی اسی وقت حساب لگانے لگتیں کہ ابھی تو پہلے والا سامان بانٹ کر بیٹھی ہوں اب یہ نئے بھرے بھرے تھیلے کس کے گھر بھیجوں، کونسا گھر رہ گیا ہے جہاں کئی دن سے کچھ نہیں بھیجا۔
سگھڑ اتنی تھیں کہ پچاس ساٹھ لوگوں کا کھانا گھر میں آرام سے بنا لیتی تھیں۔ گھر چھوٹا پڑتا تھا نہ کسی کی مہمان نوازی میں کوئی کمی ہوتی تھی۔
گھر ہمیشہ صاف ستھرا ترتیب میں رکھتیں غرضیکہ ہماری امی پیدائشی ہر فن مولا ہیں بلکہ آرٹسٹ ہیں۔ کھانا سینا پرونا سویٹر بننا ہر کام میں طاق اور ماہر۔
میرے ماموں کی ایک بیٹی اکثر ہمارے ہاں رکنے آتی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ “پھپھو ہم جب چھوٹے تھے اور اگر گھر میں ایک ٹافی بھی ہوتی تھی تو آپ ٹافی کے پانچ حصے کرکے اپنے پانچوں بچوں کو برابر حصہ دیتی تھیں اور اگر میں آپ کے گھر ہوتی تھی تو آپ چھے حصے کرتی تھیں۔ اور اپنے ہاتھ سے مجھے بھی کھلاتی تھیں”۔
ہماری امی کے سب بھانجے بھانجیاں، بھتیجے بھتیجیاں امی کے دیوانے ہیں۔ سگی ماں جیسا پیار کرتے ہیں۔
ابو کی سگی بہن تو کوئی تھی نہیں۔ لیکن منہ بولے رشتے لاتعداد ہیں۔ ایسے ہی ہماری ایک پھپھو ہمارے گھر کے قریب ہی رہتی ہیں۔ کوئی اچھی چیز بنے امی آج بھی ان کے گھر بھیجتی ہیں۔ ابو کے انتقال کو بارہ سال ہو چکے ہیں لیکن ہماری امی پھپھو کو ہر عید تہوار پہ ملنے جاتی ہیں اور حسب روایت ان کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی آتی ہیں۔
ان کی بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں تو ویسے ہی ملتی برتتی ہیں جیسے اپنی بھانجی، بھتیجی سے ملتی برتتی ہیں۔
ہماری امی کو کبھی رزق کی تنگی کا خوف نہیں ہوتا۔ اسی لیے پہلے دن سے کچن بہوؤں کے حوالے کر کے “ریٹائرمنٹ” لے چکی ہیں۔ اور ان کی خوش نصیبی ہے کہ بہویں بھی سگھڑ اور وسیع القلب ملی ہیں۔ اور آج بھی ان کے گھر میں رزق کی فراوانی ویسے ہی ہے جیسے امی کے وقتوں میں تھی۔
ابھی بھی کوئی مہمان خواہ آدھی رات کو گھر آ جائے تو دعوت جیسا کھانا کھا کے گھر جاتا ہے۔
امی کو میں نے ہمیشہ دیکھا کہ آٹا گوندھتے ہوئے سورہ واقعہ پڑھتی تھیں۔ کھانا بناتی تھیں تو اپنی درود شریف کی تسبیح اور دوسرے اذکار وغیرہ کرتی رہتی تھیں۔
امی کی آج بھی وہی عادت ہے۔ صحن میں ٹہلتی رہتی ہیں تو جتنی سورتیں زبانی یاد ہیں وہ پڑھ لیں یا اپنی تسبیح پڑھ لی۔ اگر بیٹھی ہیں تو کئی کئی سیپارے تلاوت کر لئے۔
ہمارے صحن میں قسم قسم کے کئی پودے ہوا کرتے تھے۔ ایک امرود کا پیڑ تھا لیکن پھل اتنا لگتا تھا کہ گرمیاں تو دور سردیوں میں بھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ سال بھر میں شاید ہی کوئی دن ہو کہ ہم کسی نہ کسی کے گھر امرود نہ بھیجیں۔ دل بھر جاتا لیکن ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔
یہ ہمارے تایا کے ہاتھ کا لگایا ہوا امرود تھا۔ جب تک وہ زندہ رہے سورہ یٰسین کا پانی اس کی جڑوں میں چھڑکا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد امی نے بھی یہی عادت اپنا لی۔
اب ان “پرانی ماؤں” کا کیا جائے۔ ان کا آج بھی یہی اعتقاد ہے کہ رازق پہ بھروسہ رکھو، نماز قرآن تسبیح پڑھتے رہو، اس سے بےحساب مانگو تو وہ بے حساب دیتا ہے بلکہ من و سلویٰ نازل کرتا ہے۔
ان کو نہ جانے کس نے یہ سبق سکھایا ہوتا ہے کہ جس دن رزق کو اپنے گھر میں قید کریں گی اسی دن اللہ ان کے رزق کا دروازہ بند کر دے گا۔ اس بری گھڑی سے محفوظ رہنے کے لئے بےدریغ بانٹتی چلی جاتی ہیں اور اللہ حسب وعدہ کئی کئی گنا کرکے لوٹاتا رہتا ہے۔
رزق بانٹنے والی مائیں تھکتی ہیں نہ دینے والا اکتاتا ہے۔
ہماری مائیں کسی کے رزق پہ نظر رکھتی ہیں نہ ان کے رزق کو کسی کی نظر لگتی ہے۔
وہ دوسروں کے رزق سے حسد کرتی ہیں نہ ان کے رزق پہ کوئی جادو اثر کرتا ہے۔
یہ سب پڑھ کر آپ کو یقیناً اپنی ماں کی شبیہہ نظر آئی ہوگی۔
کیونکہ ہماری اکثر مائیں آج بھی ایسی ہی ہیں۔
قائد نے انہیں ماؤں کے لیے تو کہا تھا “تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا.”
یہاں اچھی سے مراد وہ مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو “انسان” بنانے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔
ہماری مائیں ہمیں حرام کے نوالے سے نفرت ہی نہیں سکھاتیں بلکہ بچوں میں کوٹ کوٹ کے انسانیت بھی بھرتی رہتی ہیں کہ بچے کبھی جانور بننا بھی چاہیں تو خوف سے کانپ اٹھیں اور خود ہی انسان بن جائیں۔
جب تک اس قوم پہ ان ماؤں کا سایہ ہے اس قوم کے باپ بچوں کی تربیت سے بے فکر رہتے ہیں۔ ان کو بچوں کے بگڑنے کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
اسی لیے تو یہاں خاموش مجا/ہد جنم لیتے ہیں۔ جو اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں لیکن حرام کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ کیونکہ وہ ہر خوف سے آزاد ہوتے ہیں عزت، زندگی اور خاص کر رزق چھن جانے کے خوف سے آزاد۔
آپ اپنے اردگرد دیکھیں۔ آپ کو ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں خاموش مجا/ہد نظر آئیں گے۔
یا آئینہ دیکھئے۔ ہو سکتا ہے آپ کا شمار بھی انہیں میں ہوتا ہو۔ اور کل آپ کے بچے بھی آپ پہ نازاں ہوں کہ آپ نے اپنے ہر بت کو توڑ اپنے بچوں کے لیے ذہنی آزادی حاصل کی۔
کل وہ بھی فخر سے اپنے دوستوں کو آپ کی داستاں سنایا کریں گے
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
تیسری قسط
حصّہ اوّل: جنرل فیض حمید کی گرفتاری پہ تبصرہ
جنرل فیض حمید کے خلاف “سنگین جرائم” کی چارج شیٹ میں سے تین جرائم ہر صورت ناقابلِ معافی ہیں۔
- اگست 2018 میں عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی مودی سرکار کو سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی۔
فیض حمید کی بطور ڈائریکٹر جنرل سی آئی اور دیگر زرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق خان کو بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے تھی۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی باجوہ اور مودی سرکار کشمیر کا سودا کر چکے تھے۔
کشمیر کی خود مختاری پہ سودا کرنے والے باجوہ کا “ہمارے ٹینکوں میں تیل نہیں” والا مشہور زمانہ بیان ہر کسی کی یاداشت میں محفوظ ہوگا۔
- جنرل فیض حمید کا دوسرا سنگین جرم تین سال کی انتھک محنت، لگن اور کوششوں سے افغ/ان/ستان سے امریکی انخلاء کو کامیاب کرنا تھا۔
اس جرم کی پاداش میں فیض حمید کو فوری طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا اس برطرفی کا نوٹیفکیشن بھی خان کی مرضی کے خلاف باجوہ نے براہ راست جاری کیا تھا۔
(((خان کے اس دور کے بیانات کسی کے پاس محفوظ ہوں تو کمنٹ میں مینشن کر دیں تاکہ جذباتی عوام کی کمزور یاداشت بحال ہو)))۔
- جنرل فیض حمید کا تیسرا سنگین جرم، خان کی خواہش کے پیش نظر تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات کی بحالی کے لیے رو/س جیسے ملکوں میں خان کے “کامیاب دوروں” کا آغاز کروانا تھا۔
ہر پاکستانی گواہ ہے کہ پاکستان کے لیے اس دورے کے فوائد دور رس تھے
جبکہ آج پٹرول کی ہوشربا قیمتیں اور گزشتہ سال گندم کا بحران اس دورے کو ناکام بنانے والوں کا بھیانک جرم ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ خان کی مرضی کے خلاف ر/وس کے یو/کر/ین پر حملے کی مذمت کا بیان باجوہ نے ملک کے وزیراعظم کو بائی پاس کرکے دیا تھا۔
اب صرف ان تین نقاط یا “سنگین جرائم” کو سامنے رکھتے ہوئے خان صاحب کے کل کے بیان کو دیکھتے ہیں
“فیض حمید کی برطرفی پہ میری باجوہ سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ فیض ملک کا اثاثہ تھا، جسے ضائع کیا گیا”۔
جنرل فیض حمید کی “بے گناہی” ثابت کرنے کے لیے یہی دو جملے کافی ہیں۔
یاد رکھیے کہ فیض حمید کی گرفتاری باجوہ کے جرائم اور غداریوں پہ پردہ پوشی کے لیے ہے نہ کہ خان کے ساتھ مل کر کسی سازش رچانے کے جرم میں۔
تاثر یوں دیا جائے گا کہ فیض حمید نے “سازش” کرنے کی زمہ داری قبول کر لی اور عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہو گئے۔
جیل حکام اور ریٹائرڈ فوجیوں سمیت دیگر کئی حاضر سروس افراد کی گرفتاریاں اسی سمت میں اشارہ کر رہی ہیں۔
پاکستان کے غدار ایک اور محب وطن، جانباز، خاموش مجا/ہد کو کٹہرے میں لاکر ایک اور غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اگر آپ فیض حمید کی بے گناہی کے مزید ثبوت دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے خلاف پراپیگنڈہ بریگیڈ کو دیکھئے۔
حامد میر جیسے ٹاؤٹ ہمیشہ ہر محب وطن شخص کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے رہے ہیں۔
خان کے دورے حکومت میں فیض حمید کے کردار پہ بارہا انگلیاں اٹھانے والوں میں حامد میر سرفہرست رہا۔
یہ حامد میر ہی تھا جو خان کی “مذہبی شدت پسندی” ثابت کرنے کے لیے نیویارک ٹائمز میں کالمز لکھتا رہا۔
اس طرح باجوہ اور ہمنواؤں کو نہ صرف امر/یکہ میں خان کے خلاف لابنگ کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی بلکہ رجیم چینج کا مرحلہ بھی “بخیر و عافیت” انجام کو پہنچا تھا۔
لیکن ملک دشمن غداروں کی یہ روش ہرگز نئی نہیں۔
پاک سرزمین کے نظام میں یہ غدار ان گنت محب وطنوں کی زندگیاں داؤ پر لگا چکے ہیں۔
جب جب قوم کو ان کی قربانیوں کا صلہ ملنے لگتا ہے غدارِ وطن اسی پیڑ کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں۔
ایک طرف خان ان غداروں کے شکنجے میں ہے
تو دوسری طرف پاکستان کا ایک اور خاموش مجا/ہد اپنے ان ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگتنے جا رہا ہے جو پاکستان کے دشمنوں کے نزدیک ناقابلِ معافی ہیں۔
لیکن ایسا تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے
یہاں خاموش مجا/ہد یہ ظلم و ستم سہتے ہی چلے آ رہے ہیں
پھر تاعمر اپنے ہی ہموطنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہتے ہیں۔
اور اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے ہمنواؤں کو اپنی دل خراش داستانیں سناتے ہوئے ہوئے گزار دیتے ہیں
اگست 16, 2024
حصہ دوم: جنرل فیض حمید کی گرفتاری پہ تبصرہ
جنرل فیض حمید کی داستان ماضی کے ہزاروں خاموش مجا/ہدوں کی داستان سے ہی مشابہت رکھتی ہے۔
ہم صرف محمد اقبال اور اس کے جانبازوں کے تین “سنگین جرائم” کا جائزہ لیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ اس وقت بھی پاکستان کے دشمن، غدارانِ وطن کی مدد سے ہی اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے۔
1۔ ساٹھ کی دہائی میں تحریک خالصتان کو بام عروج پر پہنچانے والے کرداروں میں ایک سنہری کردار “لالی شاہ” کا پہلا سنگین جرم اندرا گاندھی کو سکھ کمیونٹی سے مزاکرات کے لیے رضامند کرنا تھا۔
زیر نظر تصویر جنوری 1990 میں اسی خاموش مجا/ہد کے مشرق میگزین میں شائع ایک انٹرویو کی ہے جس کا ایک مختصر اقتباس کچھ یوں ہے
“لالی شاہ کو چندی گڑھ کے فوجی حکام نہ صرف ایک پیشہ ور شکاری کے طور پر جانتے تھے بلکہ عام شہریوں کے نزدیک لالی شاہ ایک مذہبی سیوک اور دیالو شخص تھا۔
وہ کیرتن کرواتا تھا، پرشاد بانٹتا تھا۔
اور سیوا کمیٹی کا جنرل سیکرٹری تھا۔
گورو نانک پیس فاؤنڈیشن سیکٹر 68 کے افتتاح (اوگھاٹن) پر آنجہانی اندرا گاندھی تشریف لائیں تو لالی شاہ نے گوردوارہ پر “بندھک کمیٹی” کے “سربراہ” کی حیثیت سے ان کا سواگت کیا تھا”
- محمد اقبال کا دوسرا سنگین جرم، اپنے جانبازوں کی مدد سے مجیب الرحمٰن کے بھارتی تنظیم مکتی باہنی سے براہ راست تعلقات کا انکشاف کرنا تھا۔
اس انکشاف کی خبر پاکستان میں موجود غداروں تک پہنچی تو انہوں نے جنرل نیازی کو قربانی کا بکرا بنا کر اس وقت کے میر جعفروں کو سیف ایگزٹ دیا تھا۔
یاد کیجیے کہ اس وقت باجوہ کا کردار ادا کرنے والوں میں کون کون شخص شامل تھا۔
(((ایک اہم یاددہانی: آج کل سوشل میڈیا پر زیر گردش پاک افواج کے سرنڈر کی فوٹیجز، وڈیوز اور برہنہ تصاویر وغیرہ نہ صرف جعلی ہیں بلکہ جنرل نیازی کے کردار کو مشکوک قرار دینے والے چہرے بھی وہی ہیں جو محمد اقبال اور اس کے ساتھیوں کے مجرم تھے۔
ان مجرموں میں ایک مشہور زمانہ کردار ذولفقار بھٹو اپنے بدترین انجام کو پہنچ چکا ہے)))۔
- محمد اقبال اور اس کے جانبازوں کا تیسرا سنگین ترین جرم، بھٹو کے بھارت میں ان عوامل سے خفیہ روابط کا کھوج لگا کر پاکستان میں اپنی محب وطن بریگیڈ کو متنبہ کرنا تھا جو پاکستان مخالف جذبات سے مغلوب تھے۔
ان تعلقات کی “سنگینی” کا اندازہ اس ناقابلِ تردید حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھٹو نے نہ صرف تحریک خالصتان کے سرکردہ رہنماؤں کی فہرستیں اندرا گاندھی کو پہنچا کر آزادی کی اس تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا
بلکہ پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش میں بھی براہِ راست ملوث تھا۔
اس شخص کی انا پرستی اور خود غرضی کے باعث سوہنی دھرتی کے ہزاروں بہادر بیٹے بھارتی عقوبت خانوں میں موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
بھٹو صرف پاکستانی قوم کا ہی مجرم نہیں تھا، بلکہ سکھ کمیونٹی بھی اس کو آج تک ایک سفاک قا/*تل کے طور پر یاد رکھتی ہے۔
ابو بتاتے ہیں کہ “27 اکتوبر 1977 کو بھارت سے رہائی کے بعد جب مجھے پاکستان میں تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑا تو مجھے بیڑیوں میں جکڑ کر کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا تھا۔
وہاں میرے ہی جونئیرز اور کئی افسران مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور یہ ثابت کرنے پہ تلے رہتے کہ میں بھارت میں پاکستان کے قیمتی رازوں کا سودا کرکے رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔
دراصل یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے مجھ سمیت پاکستان کے ہزاروں بہادروں کو بھارت کے عقوبت خانوں میں زندہ درگور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
انہیں کی خواہش پر مجھے زہر دینے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
بھارتی افسران کے ظلم مجھے کبھی توڑ نہ سکے تھے مگر پاکستان میں “جیل ٹرائل” کے دوران مجھے شدید جذباتی صدمات سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔
کیونکہ یہاں میرے مدمقابل میرے ہی ہموطن تھے۔
جن دنوں میں کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید تھا تو اس دوران ایک سیل میں بھٹو کو بھی زیر تفتیش رکھا گیا تھا۔
وہاں مجھے براہ راست بھٹو سے ملاقات کا موقع ملتا اور میں اس سے کئی اہم راز اگلوانے اور کئی اعترافات جرم کروانے میں بھی کامیاب رہا۔
بھٹو کے ان اعترافات سے میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے والے کرداروں میں مجیب الرحمٰن، بھٹو اور جنرل یحیٰی خان کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی بھی براہ راست ملوث تھیں۔
جبکہ جنرل نیازی کو قربان کرکے غدارانِ وطن کو بیگناہ ثابت کرنا مقصود تھا۔
ان کی بھیانک سازشوں اور بروقت کمک نہ پہنچنے کے باعث جنرل نیازی تاریخ کے سیاہ ترین سرنڈر پہ مجبور ہوا۔
سرحد کے دونوں جانب پینسٹھ کی جنگ کے زخم ابھی ہرے تھے کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوگیا۔
بھارتی قید کے دوران میں اور میرے ہمنوا اندرا گاندھی کو یہ احساس دلانے میں کامیاب رہے تھے کہ
پاکستانی افواج کے نوجوان صرف اپنے ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کی خاطر اس محاذ پر بھارت کے مقابل آئے ہیں ورنہ وہ خون ناحق بہانے پہ قطعاً یقین نہیں رکھتے۔
پاکستان ہر کسی سے دوستی، امن اور بھائی چارے کا خواہاں ہے کیونکہ جنگیں خطے میں موجود کسی بھی ہمسایہ ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتیں۔
انہیں کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ اندرا گاندھی نے پاکستانی فوج کے جوانوں کو بہت عزت و احترام سے رکھا تھا
بلکہ اس دور کے بہترین سفارت کاروں کی کوششوں کے باعث انہیں باعزت طور پر وطن واپس بھیجنے میں بھی مدد فراہم کی تھی۔
اعتزاز احسن اس وقت ایک نوجوان مگر بہت قابل وکیل تھا۔
اس کی کوششوں سے ہی میں 1979 میں پاکستان میں پاکستانیوں کی قید سے بے گناہ ثابت ہو کر باعزت بری ہو گیا تھا”۔
جن بہادروں کی لازوال قربانیوں سے قوم کے مجرم قوم کے سامنے بے نقاب ہوئے اور اپنے بدترین انجام کو پہنچے وہ خاموش مجا/ہد آج بھی تاریخ میں امر ہیں۔
لیکن دہائیوں بعد بھی سپریم کورٹ کے نام نہاد “قاضی” بھٹو کے تمام جرائم سے پردہ پوشی کرتے ہوئے اس کی پھا/نسی کو صرف ایک جوڈیشل مرڈر قرار دے کر کلین چٹ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
جہاں یہ بھونڈی کوشش بھٹو کے جرائم کو ایک بار پھر زیر بحث لے آئی ہے
وہیں “قاضی” کے نصیب میں بھی زمانے بھر کی رسوائی در آئی ہے۔
مجیب کا مجسمہ ایک بار پھر عبرت کا نشان بنا ان غازیوں اور شہیدوں کی قربانی اور بے گناہی کی گواہی دیتا نظر آتا ہے
تاریخ خود کو دہراتی ہے کہ ہر قوم کے بہادروں کی داستان ایک سی ہوا کرتی ہے
یہی تاریخ اپنی قوم کے مجرموں کو کبھی معاف نہیں کرتی
یہی تاریخ اپنی قوم کے بہادروں کو بھی کبھی فراموش نہیں کرتی۔
یہی تاریخ بار بار ان اوراق کو سامنے لاتی رہتی ہے کہ اس قوم کے نونہال ان کی لازوال داستانیں کبھی بھولنے نہ پائیں۔
بلکہ ہمیشہ فخر کریں اور نئی لازوال داستانیں رقم کرتے رہیں
خاموش_مجاہدوں_کی_داستاں
چوتھی قسط
کیا آپ کو بھی یہی لگتا ہے کہ ہمیں جو مطالعہ پاکستان پڑھایا گیا وہ قطعاً غلط تھا؟؟؟
آج صرف ایک خاموش مجاہد کی داستان کا مطالعہ کیجئے اور نشاندہی کیجیے کہ اس میں غلط کون تھا اور اس میں غلط کیا تھا۔
اس خاموش مجاہد نے اپنے جانبازوں کے ہمراہ پاکستان کے لیے نہ صرف پینسٹھ کی جنگ جیتی تھی بلکہ اکہتر کی جیتی ہوئی بازی صرف اس لیے ہاری تھی کہ اسی کے پالے ہوئے کچھ آستین کے سانپ اس کے ہمراہی بن گئے تھے۔
سینکڑوں کامیاب محاذوں پر لڑتے ہوئے لالی شاہ کے ہاتھ بھارت میں موجود مکتی باہنی کے نیٹورک تک پہنچ چکے تھے۔
(مکتی باہنی اور سقوط ڈھاکہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے لالی شاہ کی کاوشوں کی داستان پھر کبھی سہی).
مگر لالی شاہ کے اس سنگین جرم کی سزا کا فیصلہ ہو چکا تھا۔
اکہتر میں اپنے ناپاک عزائم کو کامیاب کرنے کے لیے،
میر جعفروں کی اولاد نے نہ صرف محمد اقبال کو بھارت میں قید کروا دیا تھا
بلکہ اس کے جیسے ہر جانباز کے ساتھ غداری کی تھی جو ان کے ناجائز قبضے کی راہ میں رکاوٹ تھا۔
ستائیس اکتوبر 1969 کے دن بھارت میں لالی شاہ کی گرفتاری کا جشن جوش و خروش سے منایا گیا تھا۔ وہیں پاک وطن میں اس اندوہناک خبر نے زلزلے برپا کر دیئے تھے۔
ستائیس اکتوبر 1977 کو محمد اقبال کی رہائی کی نوید پاکستان کے اخباروں میں سنہری حروف میں چھپی تھی تو بھارت میں وہ دن آج بھی تاریخ کے سیاہ ترین باب کے طور پر رقم ہے۔
محمد اقبال پاکستان کے تراشیدہ ہیروں میں وہ “کوہ نور” تھا جس نے پینسٹھ کی جنگ کی آہٹیں سنتے ہی چندی گڑھ ائیر بیس سے ایک ایسا پرزہ غائب کر دیا تھا کہ اس کے بغیر بھارتی ایئر فورس کے تمام جنگی طیارے ناکارہ ہو چکے تھے۔
(((محمد اقبال کبھی کسی جنگ کا حامی نہ تھا۔
ہر مشن اور ہر محاذ پہ اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ سفارتی تعلقات بحال کرکے سرحدوں کے پار خون ناحق بہنے سے روکا جائے۔
کیونکہ محمد اقبال نے ستائیس اکتوبر کی ہی تاریخ کو سن 1948 میں اپنے والد چوہدری غلام محمد ، اپنے جواں سال چچا چوہدری فتح محمد اور ہزاروں پیاروں کی کٹی پھٹی لا/شیں دیکھیں تھیں۔
مقبوضہ جموں کشمیر سے آزاد پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والا یہ ایسا بہادر قافلہ تھا کہ اس میں شامل ہر فرد نے سینے پہ وار سہے تھے۔ ہمارے دادا سمیت ہر مجا/ہد اپنی آخری سانس تک لڑتے لڑتے شہید ہوا مگر پیٹھ دکھا کر بھاگا نہیں تھا۔
محمد اقبال نے انہیں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے درمیان پرورش پائی تھی جن کے سامنے ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لا/شیں بے گوروکفن دفنا دی گئیں۔
آج انہیں خاندانوں کے چشم و چراغ میں اتنا حوصلہ و ہمت ہے کہ سینتالیس میں آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مجا/ہد اپنے خونِ جگر سے اس سرزمین کو آباد کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا جاتے ہیں۔
انہیں شہیدوں اور غازیوں کی بدولت آج ہم بہاروں کی امید جگائے اس کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
ان خاموش مجا/ہدوں کی داستانیں سن کے آج بھی ماؤں کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں۔
بہنوں کی آنکھیں آنسؤں کی ندیاں بہا دیتی ہیں۔
بھائی اپنی چھلنی روح کو سینچتے پھرتے ہیں کہ
ہائے کیسے جانباز مجا/ہد تھے خود تو لافانی دنیا کے مکین ہوگئے اور ہمیں ہمیشہ کے لیے احسان مند کر گئے. ہم چاہیں بھی تو ان کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔
لیکن انسانیت کے دشمن کسی نہ کسی جنگ کی تیاری میں مصروف ہی رہتے ہیں۔ معصوم انسانوں کے خون کے پیاسوں کی، خون کی ندیاں بہا کر بھی, پیاس نہیں بجھتی۔)))۔
جس عرصے میں بھارت اپنے جنگی طیاروں کا گمشدہ پرزہ دوبارہ تیار کرتا اور طیاروں کو جنگ کے لیے فعال کرتا، اس عرصے میں پاکستان میں موجود محمد اقبال کے ساتھی انجینئرز اور سائنسدان پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ شکست بنا چکے تھے۔
یہ کارنامہ محمد اقبال نے اپنے ہزاروں بہادروں کے ساتھ اس کامیابی سے سر انجام دیا تھا کہ آج تک بھارتی ایجنسیاں ان کی بہادری کے قصے اپنے “بہادروں” کو سناتی ہیں۔
اس کوہ نور کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر، اس کو اپنی قید میں رکھنے کے لیے،
اس کو اپنے ملکی دفاع کے لیے ناقابلِ تسخیر فارمولے چرانے پہ آمادہ کرنے کے لیے،
پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنے کے راز جاننے کے لیے
بھارت اپنے مختلف خفیہ عقوبت خانوں میں طرح طرح کے ظلم ڈھاتا رہا۔
مختلف بھارتی ایجنسیوں کے افسران، جن سے محمد اقبال کی بطور لالی شاہ “دوستی” رہی تھی، اس کو گھنٹوں دہکتے کوئلوں پر لٹائے رکھتے اور کبھی پنڈلی کی ہڈیوں پہ کیلیں ٹھونکتے رہتے۔
وہ لالی شاہ کو رحم کی بھیک مانگتے دیکھنا چاہتے تھے مگر محمد اقبال باآواز بلند کلمے اور درود پاک کا ورد کرتا رہتا۔
ابو بتاتے ہیں کہ ظالم سے ظالم تفتیشی افسر کی ہمت جواب دے جایا کرتی تھی تو آخر میں یہ التجاء ضرور کرتا تھا “لالی شاہ! بس ایک بار پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دے”۔
ابو کہتے ہیں ” میں اپنی پوری قوت سے دھاڑتا
“پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ””
بھارت کے ہر عقوبت خانے میں آج بھی محمد اقبال کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن آواز کی لرزش سنائی نہیں دیتی۔
ابو کے بقول “اس وقت بھارتی افسران کے چہروں پہ رقم شکست مجھے ان کی دی ہوئی ہر اذیت سے بے نیاز کر دیا کرتی تھی۔
اس قید ناحق میں بھی، میں کبھی اپنے مشن سے غافل نہیں رہا۔ مجھے جس سیل میں بھی رکھا جاتا میں وہاں کا حدوداربعہ معلوم کر لیتا اور وہاں پہ موجود قیدیوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہو جاتا تھا۔
اس طرح میں دیگر کئی ملکوں کے بے گناہ ایجنٹس، تحریک خالصتان کے سینکڑوں معصوم قیدیوں، پاکستان کے سینکڑوں معصوم ماہی گیروں یا غلط فہمی میں سرحد پار کر جانے والوں کی معلومات حاصل کرتا رہتا۔
میں ہر وقت ان کی رہائی کے منصوبے بناتا رہتا۔ کبھی ناکام ہو جاتا یا پکڑا جاتا تو ایک نئے عقوبت خانے کی سیر کو نکل جاتا تھا۔
ان قیدیوں کی اکثریت کو میں دوران حراست ہی “فرار” کروانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ یا پھر کسی نہ کسی طرح بھارت میں موجود اپنے “آزاد نیٹ ورک” کو معلومات پہنچا دیا کرتا تھا جو ان کو رہا کروانے کی تگ ودو میں مصروف ہو جایا کرتے تھے”۔
اس اثناء میں محمد اقبال چاہتا تو خود بھی “مفرور” ہو سکتا تھا۔ مگر وہ اس دن تک خود بھی “قید” رہا جب تک اکہتر کے “جنگی قیدیوں” کی رہائی کا انتظام مکمل نہیں کر پایا تھا۔
محمد اقبال مختلف ذرائع سے اور اکثر تو براہِ راست بھی اندرا گاندھی کے ساتھ رابطے میں رہا۔ وہ تمام معاملات طے کرکے وطن لوٹنا چاہتا تھا۔
آخر کار 1977 میں اس کی ہموطن ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی دعائیں رنگ لائیں اور 1977 کو ستائیس اکتوبر کی حسین ترین صبح طلوع ہوئی اور یہ غازی دشمن کی طویل قید سے آزاد ہو کر اپنے وطن کی مٹی میں ملنے کے لئے لوٹ آیا۔
محمد اقبال کے لیے وہ صبح نئی زندگی کی نوید تھی مگر واہگہ بارڈر پر لہلہاتے ہوئے اپنے آزاد پرچم کو دیکھ کر وہ خود پہ قابو نہ رکھ پایا۔
جس محمد اقبال نے بھارت کی زمین پہ اپنا بے تحاشہ خون بہایا تھا لیکن آنسوؤں کا ایک قطرہ ضائع نہیں کیا تھا۔
وہ اپنے وطن کی سرحدیں دیکھتے ہی سجدہ شکر میں گرا تو کئی گھنٹوں تک اس کی زمین کو شکرانے کے آنسوؤں سے تر کرتا رہا۔
بے ساختہ اس کی مٹی کو چومتا رہا۔
اپنے رب کے حضور جھکا رہا کہ جس نے ان اذیت ناک آٹھ سالوں میں اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تھا کہ پاک وطن کے پرچم کو ایک پل کے لیے بھی سرنگوں نہیں ہونے دیا تھا۔
اپنی سرزمین کی سرحد عبور کرتے ہوئے محمد اقبال کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی کا اصل محاذ تو اب شروع ہوا تھا۔
اس بار اس کو لڑائی کسی دشمن کے خلاف نہیں “اپنوں” کے خلاف لڑنا تھی۔
محمد اقبال کے لیے ایک اور قیامت برپا ہو چکی تھی
اس کے ملک میں ہر طرف غداروں کا قبضہ ہو چکا تھا۔
ہر سو مفاد پرستوں کا ٹولہ غاصب بنا بیٹھا تھا۔
اس کے وہ خاموش مجا/ہد جو اس کی آنکھیں اور کان تھے وہ اپنوں کی غداریوں کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔
پھر محمد اقبال اپنی آخری سانس تک اپنے مجا/ہدوں کی دلسوز داستانیں سناتا رہا
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
پانچویں قسط
خان کے وژن کی ایک مثال دوں۔ آپ میں سے جو لوگ خان کی “کوتاہ بینی” سے نالاں ہیں ان کے لیے۔
جب شوکت خانم ہسپتال لاہور ابھی کاغذی مراحل طے کر رہا تھا اس وقت ابو نے اس کی لوکیشن کے بارے میں تبصرہ کیا تھا
“عمران خان بہت دور بین انسان ہے۔
اس نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا ہے کہ جہاں سو سال بعد بھی ٹریفک کا اژدھام نہیں ہوگا اور لاہور کے ہر داخلی راستے سے یہاں پہنچنا بہت آسان ہوا کرے گا”۔
ابو نے کسی کاغذ پر ڈرا کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہاں سے اس اس طرح سڑک تعمیر کر دی جائے تو لاہور میں ٹریفک کا لوڈ کم ہوگا اور ہسپتال تک سیدھا راستہ بھی بن جائے گا”۔
اس زمانے میں رنگ روڈ تو دور، موٹر وے بھی موجود نہیں تھی۔
لیکن میرے لیے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابو نے جس سڑک کا نقشہ بنایا تھا آج رنگ روڈ عین اسی نقشے پر تعمیر ہے۔ اس کی ہر چھوٹی بڑی ذیلی سڑک اسی نقشے کے مطابق ہے۔
(ابو اپنے کاغذات، اپنی تصویریں، خط وغیرہ شاید اپنے “خفیہ دوستوں” کے پاس رکھتے تھے
کیونکہ گھر میں تو صرف ایک دراز میں ابو کی کچھ چیزیں موجود تھیں۔
ایک بار صفائی کرتے ہوئے میں نے ایک تصویر دیکھی تھی۔ ساتھ کچھ خط اور ڈاکومنٹ وغیرہ بھی تھے ۔
میں نے پوچھا کہ آپ کی یہ تصویر کہاں کی ہے۔ بالکل نوجوانی کی عمر، پندرہ سولہ سال کی اور کیڈٹ یونیفارم میں ۔ ابو کشمیری تھے اور بے انتہا خوبصورت سرخ سفید رنگت، گرین، گرے، براؤن کلر کے امتزاج کی آنکھیں تھیں۔
ابو ایک دم سے ہنسے اور پھر دوبارہ وہ تصویر مجھے آج تک نظر نہیں آئی).
کیسا اتفاق ہے کہ جس وژن کو سامنے رکھتے ہوئے خان نے شوکت خانم ہسپتال تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس کو دیکھنے سمجھنے کے لیے بھی ہمارے ابو جیسے افلاطون دنیا میں موجود تھے۔ خواب کسی نے دیکھا اور تکمیل کسی اور کے نصیب میں آئی۔
ابو کی ذہانت کمال تھی۔ وہ “ڈفر” تھے نہ کبھی “ڈفرز” کی کسی پالیسی کا حصہ رہے۔
ان کو لاہور، کراچی، پنڈی، اسلام آباد، سیالکوٹ، دہلی، ممبئی، چندی گڑھ کی ہر سڑک، ہر راستہ ازبر تھا۔ وہاں کی گلیوں کی تعداد، گھروں کی تعداد تک یاد تھی۔
نجانے کس زمانے سے ان کو کئی شہروں کی پوری پوری فون کی ڈائریکٹری حفظ تھی۔
اور کئی سال تک ان کو اس ڈائرکٹری کا ہر فون نمبر اور اس کے مالک کا نام یاد تھا۔
صرف ایک نظر دیکھتے تھے اور ہر چیز دماغ پہ نقش ہو جاتی تھی۔
ایسی ذہانت کا شخص میں نے کبھی دوبارہ نہیں دیکھا۔ ہاں وژن ضرور دیکھا، خان صاحب کی صورت میں۔
تینوں شوکت خانم ہسپتالوں کی لوکیشن،
القادر یونیورسٹی اور نمل یونیورسٹی کی لوکیشن،
خان کا کرونا کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن اختیار کرنے کا راستہ،
مظلوم طبقے کی محرومیوں کا ازالہ کرکے فلاحی ریاست کے قیام کا راستہ،
رفتہ رفتہ نظام کی “اصل” خرابیوں کو نمایاں کرنے کا راستہ،
ہر جگہ خان کا وژن مثالی ہے۔
اسی لیے مجھے ایک نہیں کئی باتوں میں خان اور ابو کی مشابہت نظر آتی ہے کہ میں چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر پاتی۔
شاید دونوں کا کوئی روحانی تعلق رہا ہوگا۔
بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہر عظیم انسان کا آپس میں روحانی تعلق ہوتا ہے۔
رومی سے اقبال تک
قائد سے خان تک
حسین سے ہا/نیہ تک
سب جگہ یہی ذہانت, متانت اور وقار نظر آتا ہے۔
اگر ابو کو زمینی راستے ازبر تھے تو خان نے بھی گزشتہ دو ڈھائی سالہ جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اس عرصے میں جس جس راستے سے گزرا ہے اسے اسی رستے سے گزرنا چاہیے تھا۔
نئے پاکستان کی بنیاد انہیں تین سالوں کی قربانیوں پر رکھی جائے گی۔
خان کی حکومت ناجائز طور پر گرائے جانے سے خان کی گرفتاری تک کی جدوجہد، پاکستان کی جدید سیاست کی بنیاد ہے۔
گرفتاری سے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے تک، ناجائز حکومت کے ناجائز مقدمات کا سامنا کرنے تک، پاکستان کے نئے آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔
اب ناصرف انتخاباتی قوانین بدلے جائیں گے بلکہ ادارہ جاتی احتساب کا ایسا نظام ہوگا کہ ہر سو انصاف کا بول بالا ہوگا۔
موجودہ نظام کی تقریباً “سبھی خامیاں” پس پردہ تھیں۔ مگر آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ کونسی جڑ کو کاٹا جائے گا تو نئی کونپلیں بہاروں کی نوید دیں گی۔
نئے نظام کو لاگو کرنے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا اس کا فیصلہ تو اس ملک کے نوجوانوں نے کرنا ہے۔
ان تین سالوں میں یہ نوجوان ہمت، استقلال اور استقامت سے خان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔
ان کے قدم ڈگمگائے ہیں نہ خان کے۔ اگر یہ جذبے یونہی جوان رہے تو وہ دن دور نہیں، جب پاکستان دنیا کے افق پر روشن ترین ستارہ بن کر چمکے گا۔
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
چھٹی قسط
“قصہ ایک کیمرے کا”
میرے پاکستانیو!!!
گھبرا گئے؟؟؟
کیوں بار بار بھول جاتے ہیں کہ
“آپ نے گھبرانا نہیں ہے”.
آپ کی مٹی تو بقول ساقی اتنی زرخیز ہے کہ زرا سی نم ہو تو چار سو بہاریں لہرانے لگتی ہیں۔
کیوں بھول جاتے ہیں ان غازیوں شہیدوں خاموش مجا/ہدوں کو جو آپ کے لیے دن رات قربانیاں دیتے ہیں۔
لازم تو نہیں کہ وہ کسی “یونیفارم” میں ہی ہوں۔
وہ آج بھی موجود ہیں آپ کے ارد گرد ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں۔
آپ دیکھیں گے تو آپ کو ان پہ گزرنے والی قیامتیں ہم پہ گزرنے والی صعوبتوں کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوں گی۔
بلکہ ہمارا تو حوصلہ ہمت بڑھتا ہے جب جب ان کا خیال بھی دل سے گزرتا ہے۔
چلیے تمہید چھوڑئیے
آج ہمت و استقلال کی ایک داستان سنئے۔
اسی خاموش مجا/ہد کی داستان جو
کبھی جھکا نہیں، کبھی بکا نہیں،
کبھی رکا نہیں، کبھی تھکا نہیں۔
جسے اللہ نے نہ جانے کس مٹی سے بنایا تھا کہ وہ اس دنیا کا باسی ہی نہیں لگتا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں ابو کے پاس ایک جاپانی کیمرہ تھا جو ایک سیکنڈ میں بہتٌر تصویریں لے سکتا تھا۔
لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ کیمرہ ایک عام سے قلم کی شکل میں تھا۔
بھارت میں سینکڑوں کامیاب محاذوں میں ابو کا ہمسفر و ہمدم ایک بار ان سے بچھڑ گیا تو وہ اپنی جان پہ کھیل کر اس کیمرے کو بچا لائے تھے۔
(تفصیل نہیں بتاؤں گی۔ یہ قصے میں نے کمنٹ سیکشن میں اپ ڈیٹ کیے ہیں۔ ابو کی ہی زبانی سنیے تو مزہ آئے گا).
ایک بار کسی مشن کے دوران انہیں بھارتی فضائیہ کی مشقوں کی “منظر نگاری” کا موقع ملا۔
ابو بتاتے ہیں کہ وہ چار دن کسی مندر کے کھنڈرات میں چھپے رہے۔
بمشکل دو تین منٹ کا موقع ملتا تو وہ سانپ کی طرح کرالنگ کرتے ہوئے جاتے اور اپنے کیمرے سے تصویریں بنانے کا موقع تلاشتے رہتے۔ اور پھر انہیں کھنڈرات میں لوٹ جاتے۔
اس دوران درختوں کے سوکھے پتے کھا کر گزارہ کرتے لیکن پینے کے لئے پاک صاف پانی دستیاب نہیں تھا۔
اللہ کی کرنی کہ بارش برسی اور انہوں نے ہاتھوں سے چھوٹا سا حوض بنا کر اس میں پینے کا پانی جمع کیا اور گھونٹ گھونٹ پیتے رہے۔
ایک بار تو سوکھے پتوں کی چرچراہٹ قریب ہی سروائلنس کرتے بھارتی افسران کے کانوں تک بھی جا پہنچی تو اللہ نے ان کی اندھی فائرنگ سے بھی ابو کو محفوظ رکھا۔
چار دن فضا میں بھارتی جنگی جہازوں کی آوازیں گونجتی رہیں اور وہ اپنی اور اپنے کیمرے کی جان بچانے کے لیے بھوکے پیاسے وہیں دبکے رہے۔
لیکن ہم نے کبھی بھی ابو کو اس بات پہ ملال کرتے نہیں دیکھا۔
ان کی پاک فضائیہ میں کمانڈو اور گوریلا ٹریننگ تھی۔ ان کی زندگی جنگلوں میں سفر کرتے گزری تھی۔
مشنز کی ضرورت کے مطابق انہوں نے شکار کرنا بھی سیکھ لیا تھا اور بہترین شکاری بھی بن گئے تھے۔
اللہ نے انہیں بہت تیز حسیات عطا کی تھیں۔ وہ سونگھ کر بتا دیا کرتے تھے کہ کس پیڑ کے پھل اور پتے زہریلے نہیں ہوں گے اور انہیں انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جو سفر کے دوران طاقت بھی دیں گے اور بھوک مٹانے کے کام بھی آئیں گے۔
ایک اور مشن کے دوران تلاشی ہوئی تو اپنے کیمرے کو کھونے کے ڈر سے انہوں نے اسے کسی دلدلی علاقے میں چھپا دیا تھا۔
لیکن وہ صرف ابو کا غم خوار ہی نہیں تھا بلکہ ان کے جان عزیز ساتھیوں کے راز بھی اپنے سینے میں چھپائے رکھتا تھا۔
اس کے لیے وہ کئی کئی بار اپنی جان جوکھم میں ڈال چکے تھے تاکہ ان کے ساتھیوں کے راز دشمنوں پہ افشاں نہ ہو جائیں اور وہ کبھی کسی جان لیوا مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں۔
اس بار بھی وہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اپنا جان عزیز کیمرہ کھوج لائے تھے۔
لیکن ان کا کیمرہ ان سے چند گھنٹوں کی جدائی بھی برداشت نہ کر پایا تھا اور دلدلی زمین کے تیزابی اثرات سہتے سہتے ابو کو داغ مفارقت دے گیا تھا۔
اس نقصان پہ ابو کو کئی بار افسردہ دیکھا کیونکہ اس میں سینکڑوں نہیں ہزاروں تصویریں موجود تھیں جو انہوں نے مختلف مشنز میں مختلف خفیہ مقامات پر حاصل کی تھیں۔
اس کے بچھڑنے کا غم اور ملال انہیں تاعمر رہا۔
اسی کی محبت میں ابو کی ایک ایسی فون کال ٹیپ ہوگئی تھی جو ان کی گرفتاری کا سبب بن گئی تھی۔
اور ان پہ بھارتی ایجنسیوں کی حراست میں ہر دن اور رات کئی کئی قیامتیں گزر جاتیں۔
لیکن ظالم افسران عظمت و ہمت کا یہ پہاڑ کبھی ہلا نہ سکے تھے۔ اس کو توڑنے اور مسخر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ابو کی زندگی میں ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن کے بارے میں سنیں تو کوئی تسلیم ہی نہیں کر سکتا کہ کیا اللہ نے کوئی انسان ایسا بھی تخلیق کیا تھا کہ جس میں ہر خوبی بدرجہ اتم موجود تھی اور باکمال تھی۔
ابو کے چاہنے والے آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں تو اس انمول انسان کی محبت اور عقیدت میں ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ کاش اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے ایسے انسان کی قدر کی ہوتی تو آج پاکستان ترقی کی کس کس منزل کو کامیابی سے طے کر چکا ہوتا۔
لیکن امید ابھی زندہ ہے۔
ابو جیسا عظمت و ہمت کا پہاڑ بظاہر قید میں ہے لیکن دشمن کے ہر طرح کے مظالم اسے توڑ سکے ہیں نہ مسخر کر سکے ہیں۔
تو پھر آپ ناامید کیوں ہیں؟؟؟
کیا آپ کے پاس اپنی مایوسی کو جسٹیفائی کرنے کا کوئی جواز موجود ہے؟؟؟
اگر ہے تو خان صاحب کی جدوجہد کو دیکھتے سنتے سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟؟؟
یا آپ چاہتے ہیں کہ آپ خان کے قصے بھی بس سنتے سناتے رہیں اور حالات کو کوستے رہیں؟؟؟
ناامیدی چھوڑیں اور اپنے گرد کسی خاموش مجا/ہد کو تلاش کریں یا اپنے آپ کو ایسا عظیم انسان بنانے کا عہد کریں کہ یہ قوم آپ پہ بھی نازاں ہو اور آپ کی بھی داستان رقم کرے
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
خالصہ ایک خواب
خالصہ ایک خواب
امن کی ایک داستان
جسے امر کرنے کے لیے
ہزاروں دیدہ ور لافانی ہو چلے
“امن کی آشا” کے مکھوٹے پہنے،
لب پہ ہنسی، دل میں کینہ ڈھانپے
ان خوابوں کو مٹانے کے لیے سرگرداں
امر آنکھوں کو نوچنے کے خواہاں
کیا نہیں جانتے کہ
خواب کبھی مرتے نہیں
وہ تو سفر کرتے ہیں
ایک خوابیدہ آنکھ سے،
دوسری خوابیدہ آنکھ تک
جو اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے تک
بکتی ہے نہ جھکتی ہے نہ مرتی ہے۔
بس اپنے خوابوں کے تعاقب میں
نئی روح تراشتی رہتی ہے
نئی امیدیں جگاتی رہتی ہے
نئی شمعیں جلاتی رہتی ہے
جاوداں عشق کی مانند
دنیا جسے مشعل راہ بناتی ہے
امیدیں کشید کرتی ہے
نیا اک خواب سجاتی ہے
یوں کسی اور غلاموں کی بستی میں
آزادی کی لو لہلہاتی ہے
امن کی ایک اور داستان امر ہونے کے لئے
گزرے شہیدوں اور غازیوں کی لہو رنگ داستان
غلام بستی کے آزاد ذہنوں کا لہو گرماتی ہے۔
تاریخ خود کو دہراتی چلی جاتی ہے۔
تراشیدہ نگاہوں کو امر کرتی چلی جاتی ہے۔
خالصہ ایک خواب
امن کی ایک لازوال داستاں
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
ایک نصیحت
ہمارے ابو نا چالاک بہت تھے
ساری دنیا کے کام کرتے تھے
لیکن ہمارا کوئی کام ہوتا
تو ایک ہی جملہ کہتے رہتے تھے
“اپنے لیے خود کنواں کھودو، خود پانی پیو”
یوں ایسی عادت ہوتی گئی کہ کوئی مسلہ ہمیں پریشان نہیں کر پاتا تھا
بلکہ ہم مسلوں کو پریشان کرکے کوئی نہ کوئی “ایجاد” کرنے کے ماہرین بن گئے۔
پھر کبھی بے مصرف عارضی سہارے تلاشنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
خان صاحب بھی ایسے ہی چالاک ہیں
خود جیل میں جا کر بیٹھے ہیں
اور فرصتیں انجوائے کر رہے ہیں
قوم کے بچوں کو سبق پڑھائے جا رہے ہیں
کہ جج بننا تو منصف بننا
وکیل بننا تو دیانتدار بننا
ڈاکٹر بننا تو انسانیت سیکھنا
انجینیر بننا تو اپنے ملک کو ترجیح دینا
استاد بننا تو والدین جیسے بننا
قوم کے نونہالوں کو اپنی اولاد سمجھنا
تعلیم نہیں تربیت اور شعور دینا
کاروبار کرنا تو ایسے کرنا
کہ صرف ایمانداری ہی تمھاری سرمایہ کاری ہو
وردی پہننا یا نہ پہننا
وطن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینا
ہر نتیجے سے لاپروا ہو جانا
عزت اور رزق کا معاملہ اللّٰہ پہ چھوڑ دینا
من و سلویٰ کی مانند نہ برسے تو کہنا
اپنے خوف کے ہر ہر بت کو توڑ دینا
مگر ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنا
یوں ہی چالاک بن کر جینا
خاموشی سے اپنے حصے کی شمع جلائے جانا
بس اندھیری راتوں سے مت گھبرانا
اور امیدیں تھامے رکھنا
تمھارے حصّے کی صبح طلوع ہو کر رہے گی!!!
اور کبھی تمھاری بھی لکھی جائے گی
خاموش-مجاہدوں-کی-داستاں
ایک شکوہ
مقتدرہ کی ناراضگی اور پاکستانی عوام کا ردعمل
میں درد لکھوں تجھے ہو جائے
میں آگ لکھوں تجھے لگ جائے
لگتا ہے “آپ” آج کل کی نازک اندام حسینائوں سے بھی زیادہ نازک مزاج ہیں۔
جنھیں کبھی کانٹا بھی نہیں چبھا ہوتا اور زرا زرا سی بات پہ روٹھ روٹھ جاتی ہیں۔
لیکن جس کی وجہ سے آپ کو آج تک کانٹا بھی نہیں چبھا تھا نا وہ میں ہوں “ایک عام پاکستانی”
آپ کی ڈھال
آپ کو نزاکت سے پالنے والے
لیکن آپ نے تو ہر وار مجھ پہ ہی کیا
ہر نشتر سے مجھے ہی زخمی کیا۔
ہر درد مجھے ہی دیا۔
تو پھر آج میرا اتنا حق تو بنتا ہے کہ
میں صرف درد لکھوں اور تجھے ہو جائے
میں صرف آگ لکھوں اور تجھے لگ جائے۔
ایک سبق
ہیروں کی پہچان
اے نوجوانِ ملت
غور سے پڑھو اور سیکھو۔
اس جنگ آزادی کی ابتداء آج نہیں ہوئی اور نہ ہی ایک آدھ روز میں آپ اس افسانے کو خوبصورت انجام دے کر چھوڑ سکتے ہیں۔
یہ جنگ ازل سے جاری ہے حق کے مکمل غالب آنے تک یونہی جاری رہے گی۔
تاریخی واقعات اس کے عینی شاہد ہیں۔
اس لیے آج کا پہلا سبق کہ اپنے ہیروں کو پہچانیں تاکہ آپ کو کرائے کے نقلی ہیروں کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے ہمراہ یورپی سامراجیوں کی جنگ میں برطانیہ کی حمایت کی تھی.
بلکہ گاندھی نے صوبہ گجرات میں گاؤں گاؤں گھوم کر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے فوجی بھرتی کے حق میں کئی پمفلیٹ لکھے۔ ایک پمفلٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ
“سوراج کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ایمپائر کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔ کیونکہ اگر ایمپائر ختم ہوگئی تو ہماری امیدوں اور تمناؤں کا محور بھی ختم ہو جائے گا”.
گاندھی کے لفظ “ایمپائر” پہ اصرار پر توجہ کریں
ناکہ نوجوانوں کی زندگی اور مستقبل پہ۔
انہوں نے وائسرائے کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ
“میں اس کڑے وقت میں ہندوستان کے ہر فرزند کو “ایمپائر” کے لیے کٹ مرنے پر راضی کرنا چاہتا ہوں”.
لیکن اُس وقت کے دانشورانِ ملت گاندھی سے سوال کرنے کی بجائے
بھگت سنگھ کے جانثار ساتھی جیتندر ناتھ داس کی تریسٹھ دن کی بھوک ہڑتال کے بعد المناک موت پہ قائد اعظم کا گریبان نوچ رہے تھے۔
جنھوں نے حالات کے پیشِ نظر اپنے ہم وطن نوجوانوں کو داس کی بھوک ہڑتالی موت کو مثال بنانے سے روکنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔
لیکن بونے دانشوروں نے اسے قائد کی کمزوری کہا۔
جبکہ قائد ایک پریکٹیکل مسلم تھے نہ کہ دنیا دکھاوے کے، داڑھی دار، حاجی، پرہیزگار۔
ان کا کامل ایمان تھا کہ صحت ایمان سے بھی بڑی نعمت ہے۔
اور کسی بھی قیدی کو سلاخوں کے پیچھے بھی رزق پہنچانے کا دعویدار رازق ہی ہے۔
بھوک ہڑتال کرکے ہم اپنے رب کی عطا کی ہوئی صحت، تندرستی اور سلامتی کو ہی داؤ پر نہیں لگاتے بلکہ
رازق کے بھیجے رزق کا انکار کرکے اس رحیم و کریم ذات کا بھی کفر کرتے ہیں جو ہمارے ہر گناہ کے باوجود ہمارا رزق نہیں روکتا۔
آج پھر آپ کو سانحہِ 27 نومبر کا الزام وکٹم پہ لگانے والے مل جائیں گے۔
لیکن معلوم ہے کیوں؟؟؟
وہ مجبور ہیں۔
کیونکہ اگر انہوں نے حق سچ کا ساتھ دیا تو ان کو اپنے حر°ام کاموں سے ہی نہیں حر°ام دولت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
اور آج تو ہمارے جوان بیٹوں بھائیوں کے خون سے ایسی ریڈ لائن کھینچ دی گئی ہے کہ ہر مسخرے باز، نمک حر°ام، حر°ام خور دو نمبریوں کے ماہر کے لیے اتمام حجت قائم ہو گئی ہے۔
اب نہ تو ہمارے مخالفین کے پاس وقت بچا ہے کہ وہ یہ ریڈ لائن کراس کرکے ہمارے ساتھ شامل ہوں
اور نہ ہی ان کے پاس ایسا کوئی اخلاقی جواز موجود ہے کہ وہ ظالم کی حمایت میں کوئی دلیل پیش کر سکیں۔
آج ہر وہ شخص مجرم ہے
جو ہماری قربانیوں کو ڈی ویلیو کرتا ہے
ہمارے بھائیوں، بیٹوں کو جاہل کہہ کر استہزاء اڑاتا ہے کہ “اس سسٹم کو چلنے دو۔ خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی نوچ نوچ کر کھانے دو”.
یہ ظالم ایسے بےحیا ہیں کہ دولت کی ہوس میں اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزت بچانا تک بھول جاتے ہیں۔
یہ اپنی دولت کو بچانے کے لیے کسی بھی پستی میں گر سکتے ہیں۔
یہ اپنی ہوس کی تسکین کے لیے کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں۔
ان کے استہزاءیہ قہقہے نظر انداز کرو
اور یاد رکھو نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا بھی پیغمبرِ وقت کے مشکل ترین وقت میں ساتھ دینے سے کترا گیا تھا۔
اس نے دولت اور طاغوت کا پجاری بننا اور ڈوب مرنا قبول کیا۔
لیکن کیا اس کے استہزاءیہ قہقہے حضرت نوح کے ارادے متزلزل کر سکے تھے یا ان کی کشتی کو ڈبو سکے تھے؟؟؟
ہرگز نہیں۔
لا الہ الااللہ کی طاقت سے چلنے والی کشتی ڈبونا کسی طاقتور ترین پہاڑ، سمندر یا طوفان کے بس کی بات نہ تھی۔
آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ
خون جو ہے شہی°د کا وہ قوم کی حیات ہے
تم ہی سے اے مجا°ہدو! جہاں کو ثبات ہے۔
تو پھر آج مایوس کیوں؟؟؟
روشن کر اپنے مقدر کا ستارہ
کیا آپ نے ارشد ندیم کی تصویر غور سے دیکھی ہے؟؟؟
کیا آپ کو ان آنکھوں میں اپنا کوئی خواب لہلہاتا نظر آتا ہے؟؟؟
کیا دماغ کے کسی کونے میں یہ سوچ گنگناتی ہے؟؟؟
کہ
“کاش میں نے بھی ہمت نہ ہاری ہوتی
کاش میں نے بھی کوشش ترک نہ کی ہوتی
کاش میں نے لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہ دی ہوتی
کاش میں نے بھی اپنے دل کی یہ آواز سنی ہوتی
قدرت نے جو ہنر تمہیں دان کیا ہے دنیا میں کوئی بھی اور شخص اس کا اہل نہیں۔ تمہاری انگلیوں کے پوروں کی طرح یہ صرف تمھارے لیے ہی خاص ہے
کاش میں نے خود پہ بھروسہ کیا ہوتا
کاش میں اپنی محنت جاری رکھتا
کاش میرا کوئی ہاتھ تھامنے والا ہوتا
تو آج میرا نام بھی سنہرے حروف میں لکھا ہوتا
کاش میں اس شخص کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیتا
جسے مجھ پہ مجھ سے بھی زیادہ بھروسہ تھا۔
جس نے اس وقت میرا کندھا تھپتھپایا تھا
جب سب لوگ مجھے پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے تھے۔
کاش میں نے اس شخص کا کہا سنا ہوتا
تو آج میں بھی دھکیلنے والوں کی مخالف سمت میں تن تنہا بھاگتے بھاگتے اپنی منزل مقصود پہ پہنچ چکا ہوتا”
اس کاش کی فہرست اتنی طویل ہے
جتنی آپ کی عمر ہے۔
آپ ہر روز اپنے خواب و خیال میں اسی کردار کو جیتے ہیں اور جب دنیا کے سامنے آتے ہیں تو اسے یادوں کے قبرستان میں سپردِ خاک کر آتے ہیں۔
آپ رات بھر چپکے چپکے ان راستوں کو تعمیر کرتے ہیں
جن پہ چل کر آپ اپنی منزل مقصود پہ فاتح بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن صبح کا اجالا آپ کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔
جہاں ایک بار پھر آپ اپنے خواب
لوگوں کی استہزائیہ نظروں اور طنزیہ لہجوں کی آگ میں جھونک کر تھکے ہارے گھر لوٹ آتے ہیں۔
اب آپ ایک بار پھر ارشد ندیم کی وڈیو دیکھئے
اس کا اپنے کوچ کے ساتھ عقیدت، محبت، احترام، تشکر سے لپٹنا دیکھیے
اس کے استاد کی آنکھوں میں اپنے خواب کو مجسم دیکھنے کی خوشی محسوس کیجیے۔
جسے اس کے عکس نے کبھی جھکنے نہیں دیا تھا اس سر کا فخر سے بلند ہونا دیکھیے۔
اس جوہری کے تراشیدہ ہیرے کو کوئی خرید نہیں سکا تھا
کیونکہ اس نے اس کو انمول بنایا تھا۔
کوئی چاہ کر بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکا تھا۔
اگر یہ ہیرا ٹوٹ جاتا تو کبھی اپنے استاد کا سامنا نہیں کر پاتا۔
کبھی اس کی آنکھوں میں اپنا ٹوٹا ہوا عکس دیکھ نہیں پاتا۔
مگر اس نے اپنے استاد کا نام امر کرنے کی ٹھانی تھی
اور جان کی بازی لگا کر بھی اسے یہ بازی جیتنا تھی
آج نہیں تو کل یہ لمحہ اسی کا نصیب بننا تھا
کوئی کتنا ہی مکر و فریب گھڑ لاتا
اس کے نصیب میں لکھا اس کے نام کا روشن ستارہ اپنے نام نہیں لکھ سکتا تھا۔
دنیا بھر میں جب کبھی کسی ارشد ندیم کا تذکرہ ہوگا تو اس کے کوچ سلمان اقبال بٹ اور رشید احمد ساقی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
کوئی چاہ کر بھی ان ناموں کی سیاہی کو مانند نہیں کر پائے گا۔
اب آپ جاگ جائیں
حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئیں
اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں
آپ کے گھر میں،
اپنے ہی لوگوں میں
کہیں کوئی آپ کا عکس بھی موجود ہے۔
آج اسے آپ کے بچپن کی طرح لوگوں کی استہزائیہ نظروں کا سامنا ہے۔
اور وہ ان سے بچنے کے لیے دروازوں کی آڑھ میں چھپا رہتا ہے۔
چپکے سے جائیں
اس کا کندھا تھپتھپائیں
اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو سمیٹ کر
اپنے دامن میں چھپا لائیں
اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے خوابوں کی دنیا دکھائیں
اس کو وہ راستے دکھائیں جنھیں آپ ہر رات کی تاریکی میں چپکے چپکے تعمیر کرتے ہیں۔
اس کا ہاتھ تھام کر اسے کہکشاؤں کے پار
اس دنیا میں لے جائیں
جہاں ہر سو ایک میلے کا سماں ہے
اور دنیا اس کی عظمت کے گن گا رہی ہے۔
غرضیکہ اپنے خوابوں کو مجسم دیکھنے کے لیے
سر دھڑ کی بازی لگا جائیں۔
اس کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو اس کے لیے سیڑھی بناتے چلے جائیں
اس کے رستے کا ہر کانٹا اپنے ہاتھ سے چنتے جائیں
کہ آپ کے عکس کو اس کی چبھن بھی محسوس نہ ہو۔
جلدی کیجیے
کیونکہ دیر تو پہلے ہی ہو چکی ہے۔
بالکل یہی لمحہ، یہی تصویر، یہی لہلہاتا پرچم
دنیا کے کسی کونے میں آپ کے انتظار میں ہیں
کہ ایک نہ ایک دن آپ آئیں گے اور اپنے اس لمحے میں امر ہو جائیں گے۔
رہتی دنیا تک جب بھی کبھی اس لمحے کا تذکرہ ہوگا
آپ کا نام روشن ستارہ بن کر ان زاکروں کی راہنمائی کرے گا۔
اور دنیا آپ کے گن گایا کرے گی
آپ کو تاقیامت زندہ و جاوید رکھے گی۔
تو پھر کون سا ستارہ آپ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں
سوچیے گا ضرور۔